لفظ فلسفہ یونانی لفظ فلوسوفی یعنی حے محبت سے نکلا ہے فلسفہ کا موضوع وجود ہے۔ پس کائنات کی ہر شیء اس علم میں داخل ہے۔ لیکن وجودِ عام سے بحث کرتا ہے۔ فلسفہ کسی بےےے ے متعلق اٹھنے والے بنیادی سوالات کا جواب فراہم کرتا ہے۔ اب اگر وہ دین ہو تو فلسفہ دین، اگر تاریخ ہو توفلسفہ تاریخ، اگر اخلاق ہو تو فلسفہ اخلاق، اگر وجود ہوتو فلسفہ وجود کہا جاتا ہے وغیرہ۔نیزفلسفہ علم و آگہی کا علم ہے، یہ ایک ہمہ گیر علم ہے جو وجود کے اعراض اور مقصد دریافت ہےے کی سعی کرتا ہے۔ افلاطون کے مطابق فلسفہ اشیا کی ماہیت کے لازمی اور ابدی علم کا نام ہے۔ جبہ ارسطو کے نزدیک فلسفہ کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ وجود بذات اپنی فطرت میں کیا ہیں۔ ہےے کانٹ اسے ادراک و تعقل کے انتقاد کا علم قرار دیتا ہے۔ ہے ہے ہ ہے ہ ہے ہ تبصرہ کتاب ' یہ کتاب مغرب کے 17 فلسفیوں کی سوانح اور ان کے افکار و نظریات پر مشتمل ہے ۔ فاضلمصنفاابمیںانفلفیوںทำไม جن میں افلاطون، ارسطو،ابن رشد،جان لاک،ہیگل، کارل مارکس، ولیم جیمس،برنرنڈرسل وغیرہ کے نام شامل ہیں ۔اس سلسلہ میں جہاں تک ہوسکا ہے فاضل مصنف نے اصطلاحات کے استعمال سے گریز کیا ہے تنقیدی تجزیہ اور مابعد الطبیعاتی الجھنوں سے دور رہنے کی کوشش کی ہے ۔(م ۔ا).
เพิ่มเติม